الوقت- برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایران میں انیس سو ترپن کی فوجی بغاوت اور اس وقت مصدق کی حکومت کو سرنگون کرنے میں برطانیہ اور امریکہ کی مداخلت کے بارے میں کہا کہ ہم ماضی میں جو ہوا ہے اسے لوٹا نہیں سکتے اور تاریخ کو دوبارہ نہیں لکھ سکتے۔
برطانوی وزیر خارجہ فیلپ ہیمونڈ نے جو گذشتہ ہفتے برطانیہ کے سفارتخانے کا دوبارہ افتتاح کرنے تہران کے دور پر تھے۔ انہوں نے اس دورے میں ایران کے بعض حکام سے ملاقات بھی کی۔ فلیپ ہیمونڈ نے ایران کے خبر چینل سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور اکیسیویں صدی میں مثبت تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ دوبارہ سفارتخانے کھولنے اور گفتگو کا مقصد ماضی کے بجائے مستقبل پر نگاہ رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیسیوں صدی یا حتی انیسویں صدی میں پیش آنے والے واقعات پر توجہ مرکوز کرنے کےبجائے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور اکیسیوں صدی میں اور مستقبل میں مثبت تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ انہوں نے ایران کے حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں کہا کہ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ، علاقائي اور عالمی مسائل کے بارے میں گفتگو ہوئي۔ انہوں نے کہا ہم تمام میدانوں میں مقابلہ کرنے کے بجائے گفتگو کے راستے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کے سامنے چیلنجز کےبارے میں ہم بھی ملتے جلتے تجزیے رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو بہتر بنائيں اور مستقبل میں ایران کی اقتصادی ترقی میں حصہ دار بن جائيں۔ برطانوی وزیر خارجہ کے ی بیانات مستقبل پر نگاہ رکھنے کے لحاظ منطقی لگيں لیکن بلاشبہ ان نظریات کو ایک مثبت فرضیہ پر بھی استوار ہونا چاہیے، ایسا فرضیہ کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ برطانیہ کی پالیسیاں تبدیل ہوگئي ہیں اور جو باتیں ہیمونڈ نے کی ہیں وہ حقیقت میں مستقبل پر نگاہ رکھ ہی کی گئي ہیں۔ اس بنا پر ان بیانات کا جائزہ لینے کا مقصد ان کی نفی یا اثبات نہیں ہے بلکہ اصل مسئلے کا جائزہ لینا ہے۔ حالیہ دہائيوں میں ایران اور برطانیہ کے تعلقات پر طائرانہ نظر ڈال کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انیس سو ترپن میں ایران میں صنعت پٹرولیم کے قومیائے جانے کے بعد برطانیہ نے ایران کے ساتھ مخاصمانہ طریقے اپنائے اور یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی جاری رہا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں برطانوی سفارتخانے کا بند ہونا اور دوبارہ انیس سو اٹھاسی میں اس سفارتخانے کا کھولاجانا، انیس سو نواسی میں مرتد سلمان رشدی کے واقعے میں ایک بار پھر برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا منقطع ہونا اور انیس سو نوے میں دوبارہ برطانوی سفارتخانے کا کھولاجانا نیز اسکے چار برسوں بعد پھر تہران اور لندن میں ایک دوسرے کے سفارتخانوں کا بند ہونا اور گذشتہ ہفتے دوبارہ دونوں سفارتخانوں کا کھولاجانا ماضی سے لے کر حال تک کے پر پیچ و خم راستوں کی نشاندھی کرتا ہے جن سے تہران اور لندن کے تعلقات میں آنے والے فراز و نشیب کے اسباب کا پتہ چلتا ہے۔ اب اسلامی جمہوریہ ایران کی گيارھویں حکومت کی خارجہ پالیسی مختلف ملکوں سے تعاون پر مبنی ہے اور برطانوی وزیر خارجہ کے دورہ تہران میں بھی اس بات پر مثبت نگاہ سے تاکید کی گئي ہے کہ ہمیں حاصل شدہ موقع سے صحیح فائدہ اٹھاناچاہیے۔ واضح رہے جیسا کہ صدر جناب حسن روحانی نے برطانوی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے حکام کا فریضہ ہے کہ آپسی تعلقات کو باہمی اعتماد پر دوبارہ بحال کریں اور قابل قبول سطح تک پہنچائیں۔ جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ برطانیہ یورپ میں سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اہم کردار کاحامل ہے اور اسی کردار کی بنا پر علاقے کے مسائل کو حل کرنے میں مفید واقع ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف سے ایران بھی بااثر، بے پناہ اقتصادی توانائیوں کا حامل اور سیاسی اور جمہوری میدانوں میں استحکام کا حامل ملک ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر دونوں ممالک بہت سے مسائل اور موضوعات میں جیسے انسداد دہشتگردی اور منشیات کے مقابلے نیز اقتصادی ترقی میں تعاون اور ایک دوسرے کی توانائيوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ نے جو یہ بات کہی ہے کہ انہوں نے اپنی اسٹراٹیجی کی تدوین میں تبدیلی کو نصب العین قرار دیا ہے اور جو موقع ملا ہے اس کے پیش نظر یہ کوشش کررہے ہیں کہ مستقبل پر نگاہ رکھتے ہوئے باہمی تعلقات بڑھانے کےلئے جامع پروگرام بنا رہے ہیں۔ ان کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے البتہ اس بات کی توقع نہيں رکھنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے پر نشیب و فراز تعلقات کے پیش نظر جلدی میں کوئي قدم اٹھایا جائے کیونکہ دونوں ملکوں کے نظریات میں بالخصوص خارچہ پالیسی کے نقطہ نظر سے اب بھی بہت سے مسائل میں سنگین اختلافات پائے جاتے ہیں ہرچند اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تہران اور لندن کے درمیان بعض مسائل گفتگو سے حل ہوسکتے ہیں۔ حقیقت امر یہ ہے کہ جدید سامراج امریکہ ہو یا قدیمی سامراج برطانیہ ان کو جب اپنے مفادات عزیز ہوتے ہین تو ہر طرح کے معاہدے اور عہد و پیمان پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن جونہی ان کی خوئے امپیریالزم بیدار ہوتی ہے یہ اپنی سامراجی ماہیت پر پلٹ آتے ہیں۔آج ایران کی عالمی اور علاقائی صورت حال کے پیش نظر برطانیہ کو ایران کی ضرورت ہے لہذا وہ تہران کے قریب آنا چاہتا ہے وگرنہ نہ اسکی نیت بدلی ہے نہ ارادے۔