الوقت- تاریخی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ امریکہ سے بہت پہلے مشرق وسطی میں اپنے اثر و نفوز میں اضافے کے لئے کوشان رہا ہے بلکہ اس خطے کا ایک بڑا علاقہ مدتوں یورپ یا پورپ کی کسی ملک کی کالونی رہ چکا ہے جسکے اب بھی بہت سے آثار بآسانی دیکھے اور محسوس کئۓ جاسکتے ہین۔کئی تاریخی حوالے اس بات کو ثابت کرتے ہین کہ اس خطے کو مشرق وسطی کا نام دینے والے بھی یورپی پالیسی ساز تھے جنہوں نے بڑی چالاکی سے اپنے آپ کو مغرب اور باقی دنیا کو اپنے اس نظرئے کے مطابق مختلف جغرافیے میں تقسیم کردیا بہرحال یورپ اپنی پرانی اور دست رفتہ حیثیت کو واپس لانے کی کوششیں کرتا رہتا ہے ا سی تناظر میں یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کمیشن کی سربراہ فڈریکا موگرینی نے کہا ہے کہ ان کی یونین فلسطین اور اسرائيل کے درمیاں قیام امن کے عمل میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق فڈریا موگرینی نے مشرق وسطی کا دورہ شروع کرنے سےقبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کا دورہ سیاسی دورہ ہےاور یورپی یونین مشرق وسطی میں قیام امن کے عمل میں بھرپور کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے۔ موگرینی نے فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات بھی کی ہے۔
فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیاں مذاکرات کے تعطل سے یورپی ملکوں کے مواقف میں تبدیلی آئي ہے۔ صیہونی حکومت کی غیر انسانی کاروائيوں میں شدت آنےبالخصوص مشرق وسطی قیام امن کے مذاکرات میں روکاوٹیں بالخصوص فلسطینی علاقوں میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کے عمل کے جاری رہنےسے یورپ میں صیہونی حکومت کے روایتی حلیف بھی اس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔۔
یورپی یونین، امریکہ، روس اور اقوام متحدہ چارجانبہ بین الاقوامی گروپ کے رکن ہیں۔ یہ گروپ فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے تصادم کی روک تھام کے لئے بنایا گيا تھا۔ یہ گروہ فلسطینیوں سے زیادہ قریب دکھائي دیتا ہے لیکن صیہونی حکومت کو یورپ کی یہ ادا کبھی نہیں بھائي ۔ قابل ذکرہے صیہونی حکومت کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ساز باز مذاکرات کئي برسوں سے عملا رکے ہوئے ہیں۔فلسطینی علاقوں میں یہودی کالونیاں تعمیر کرنا، اور ان میں ديگر ملکوں سے یہودیوں کو بلا کر آباد کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس کے سہارے قدس کی غاصب حکومت مقبوضہ فلسطین میں آبادی کا تناسب بگاڑ نا چاہتی ہے۔ فلسطین کی خود مختار انتظامیہ اور یورپی یونین ان پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ ایسے حالات میں لگتا ہےکہ یورپی یونین مشرق وسطی میں قیام امن کے عمل میں فعال کردار ادا کرے گي، ممکنہ طورپر یورپی یونین ساز باز مذاکرات کے عمل کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرے گي اور فریقوں کو مذاکرات میز پرلائے گي۔ یورپی یونین کا کہنا ہےکہ بڑی حد تک صیہونی حکومت قصور وار ہے جو مختلف بہانوں سے جامع اور بامعنی مذاکرات سے فرار کرتی رہتی ہے۔ ادھر حالیہ مہینوں میں یورپ کی مختلف حکومتوں اور پارلیمانوں نے فلسطین کو تسلیم کئےجانے اور ایک مستقل اور آزاد فلسطینی ملک کے قیام کی حمایت کی ہے جو بذات خود ایک نہایت اہم قدم ہے اور اس سے مشرق وسطی قیام امن عمل پر مثبت اثرات پڑسکتے ہیں۔
مشرق وسطی میں ایسے حالات نظر آرہے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر قدس کی غاصب حکومت بوکھلا گئي ہے، اس سے قبل صیہوین وزیر اعظم نیتن یاھو نے اپنی انتخاباتی سرگرمیوں میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئے تو فلسطینی ملک ہرگز وجود میں نہیں آسکتا۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں یورپی یونین فلسطین کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتی ہے اور فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان امن قائم کرنے کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرتی ہے۔ البتہ قدس کی غاصب حکومت کو یورپ کے اس موقف پر شدید ناراضگي ہے اور تل ابیب نے فلسطینیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کی مخالفت کی ہے جو سب سے کے لئے قابل قبول ہو۔اسی وجہ سے یورپ اور صیہونی حکومت کے تعلقات میں کشیدگي آگئي ہے۔ یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی یورپی حکمرانوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یورپی عوام میں صیہونی حکومت کی اصلی ماہیت روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے ۔ یورپی عوام کا دباؤ اس بات کا باعث بن رہا ہے کہ یورپی حکمران بھی کسی حد تک اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہین تاہم مستقبل کے حوالے سے یورپ سمیت دنیا بھر میں سرگرم عمل صیہونی لابی پر نظر رکھنی ہوگی کہ وہ عوامی حمایت کے اس سلسلے کو کمزور کرنے کے لئے کیا سازشیں تیار کرتی ہے