الوقت- کسی مفکر کا قول ہے :اگر حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کی تیروں پر نظر رکھو وہ جہاں لگ رہے ہوں حق وہیں ہے؛۔ موجودہ صدی کے مجددالدین امام خمینی کا قول ہے کہ اگر امریکہ تمہارے کسی کام پر خوش ہوا ہے تو اس کام پر نظر ثانی کرو کیونکہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی پر کبھی خوش نہیں ہوسکتا۔آج عالم اسلام میں امریکہ بہادرجس ملک کے حکمران سے خوش ہے تو بس سمجھ لو دال میں کچھ کالا ہے مصر میں جب السیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو دو ملکوں نے اس پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا وہ دو ملک امریکہ اور سعودی عرب کے علاوہ کوئی اور نہیں تھے۔ایک باغی فوجی سربراہ السیسی جس نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا کھلے عام مذاق اڑایا ہو ۔جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بد ترین مثال پیش کی ہو ۔جس کے حکم پر ہزاروں عورتوں مرد وں بچوں اور ضعیفوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہو ۔جس کے حکم پر مسجد میں آگ لگا دی گئی ہو اور ہزاروں مساجد میں تالے ڈال دئے گئے ہوں ۔اس کیلئے امریکہ اور سعودی حکمراں دونوں کی طرف سے مبارکبار ،جوش اور فریفتگی سے کیا ظاہر ہوتا ہے ۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ باطل کا تیر کس کی طرف سے اور کس طرف ہے ۔کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مصر میں اخوان کی قانونی حکومت کا غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے خاتمہ میں یہود اور سعود کی برابرشراکت ہے ۔اب یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ ان حقیقتوں کی روشنی میں آل سعود کو خادمین حرمین شریفین کہنا کہاں تک درست ہے جبکہ ان کے کارنامہ مسلم امہ کو نفاق میں مبتلا کرنے اور قاتل و جابراور غاصب اسرائیل کو قوت فراہم کرنے والا ہی ہے۔آج یمن میں جو کچھ ہورہا ہے کیا امت مسلمہ اس کو اتنی اسانی سے بھلا دیگی ۔کیا صرف حاجیوں کی مہمان نوازی ان کے پیسوں سے کرنا اور حج کے انتظامات کرنا ہی ساری خامیوں اور اسرائیل نوازی جیسی لعنت کو دھونے کیلئے کافی ہے ۔مصر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق حالیہ چند دنوں میں قاہرہ میں صوبائي انتظامیہ کی عمارت اور عدالت کے سامنے نیز پولیس کے چیک پوسٹوں میں بم دھماکے ہوئے ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں تازہ ترین واقعہ قاہرہ میں قومی سلامتی ادارے کے سامنے ہونے والا کار بم دھماکہ ہے۔ نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کےمطابق مصر کے طبی ذرائع نے کہا ہے کہ قاہرہ میں قومی سلامتی کے ادارے کے سامنے ہونے والے کار بم دھماکے میں جو جمعرات کی صبح کوشبر الخیمہ کے علاقے میں ہوا ہے چھے افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر مصر کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے کے سامنے ایک گاڑی پارک کی گئي تھی جس میں دھماکہ ہوا ہے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ قومی سلامتی کے ادارے کی عمارت کے اکثر حصے تباہ ہوگئے ہیں۔ آگاہ ذرائع کے مطابق اس بم دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد تئيس تک پہنچ گئي ہے۔ واضح رہے مصر میں جب سے محمد مرسی کو معزول کیا گيا ہے جھڑپیں اور بدامنی جاری ہے اور متعدد بم دھماکے بھی ہوچکے ہیں۔ البتہ گذشتہ چند ہفتوں میں جھڑپوں بالخصوص بم دھماکوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔آگاہ افراد کے مطابق مصرمیں بم دھماکوں میں ایسے حالات میں اضافہ ہورہا کے مصری صدر عبدالفتاح سیسی نے مختلف حلقوں کی مخالفت کے باوجود انسداد دہشتگردی کے نئے قانون پر عمل درآمد کا فرمان جاری کیا ہے۔ مصر میں انسداد دہشتگردی کے نئے قانون پر تنازعہ کھڑا ہوچکا ہے اور مختلف حلقے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کا مقصد شہریوں پر کنٹرول بڑھانا اور میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا ہے جس کے نتیجے میں مخالفین کو کچلنے کے لئے قانونی جواز فراہم ہو جائيں گے۔ واضح رہے گذشتہ چند دنوں میں انسانی حقوق کی سترہ تنظیموں نے مصر کے نئے انسداد دہشتگردی قانون پر اعتراضات کئے ہیں۔ ان تنظیموں کے مطابق اس قانوں میں دہشتگردی کی اتنی وسیع تعریف کی گئي ہے کہ شہری مسائل سے متعلق چھوٹی سی چھوٹی مخالفت بھی اس زمرے آسکتی ہے۔ دوہزار تیرہ میں مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے حکومت کی تشدد آمیز کاروائيوں میں ایک ہزار چار سو افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں اور بہت سے گرفتار شدہ افراد کو لمبی قید اور پھانسی کی سزائيں سنائي گئي ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح سیسی نے مصری اٹارنی جنرل کے قتل کے بعد مصر کے آئين میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس قانون کی منظوری اور اس پر عمل درآمد سے یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے موجودہ حالات میں اس قانون کی رو سے اخوان المسلمین کے سیکڑوں رہنماؤں کو جو پھانسی کی سزا سنائي گئي ہے اس پر فوری عمل درامد ہوسکتا ہے۔ عبدالفتاح سیسی نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ انسداد دہشتگردی کے قوانین کو مزید سخت بنائيں گے تا کہ انتہا پسندوں کو تیزی سے کیفر کردار تک پہنچا یا جاسکے۔ بعض مصری حکام یہ امید کررہے ہیں کہ اس نئے قانون سے انتہا پسندوں کی دہشتگردانہ کاروائياں ختم ہوسکتی ہیں لیکن بہت سے حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ اس قانون کو صدر سیسی کی پالیسیوں کے مخالفین کو کچلنے اور انہیں میدان سے ہٹانے کے لئے استمعال کیا جاسکتا ہے۔خطے میں اسلامی بیداری کے موقع پر مصر میں ایک جوہری تبدیلی ظاہر ہوئی تھی جنرل السیسی اورانکے بیرونی مشاور اس تبدیلی کو مٹانا چاہتے ہیں وہ حسنی مبارک سے بھی زیادہ سخت قوانین لاگو کرکے مصری عوام کے قلب و زہن میں موجود اسلام کے اجتماعی اور سیاسی نظریات کو کچل کر مصر کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں کوئی بھی مصری شہری نہ تو اسلام کی توہین پر صدائے احتجاج بلند کرے اور نہ ہی اسرائیل سے میل جول بڑھانے پر معمولی سا بھی اعتراض کرے۔ایسا مصر امریکہ اور اسرائیل کے لئےتو یقینا قابل قبول ہوگا آل سعود کی حکومت بھی اس پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے آمادہ و تیار رہے گی۔