الوقت- ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کے بعدطالبان ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی بھی ایک سال پہلے وفات پا چکے ہیں جنھیں افغان علاقے میں سپرد خاک کیا گیاتھا۔
جلال الدین حقانی طالبان کے موجودہ سیٹ اپ میں آپریشنل کمانڈر سراج الدین حقانی کے والد ہیں۔ سراج الدین حقانی بھی امریکا کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت دس ملین ڈالرز مقرر کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق جلال الدین حقانی کے دس بیٹوں میں سے تین ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ جلال الدین حقانی کے ایک بیٹے نصیرالدین حقانی کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔ نصیرالدین حقانی ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے طالبان ترجمان کے طور پر کام کرتے تھے۔ جلال الدین حقانی کا ایک بیٹا انس حقانی افغانستان میں اتحادی افواج کی زیر حراست ہےحقانی گروپ کے سابق سربراہ امریکا کو انتہائی مطلوب کمانڈروں میں شامل تھے۔
یہ خبر دھماکہ خیز ہونے کے علاوہ اس لئیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر یہ درست ہے تو اس کے پاک افغان تعلقات اور اس خطے میں امن کے قیام کی کوششوں پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے کسی شہر میں ملا عمر کی ہلاکت اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کی پراسرار موت سے عالمی برادری ممکنہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ افغان طالبان کی ڈوریاں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں اور وہ ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس طرح اقوام عالم کی توجہ ایک بار پھر اسی طرح پاکستان پر مرکوز ہو جائے گی جیسے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد ہو گئی تھی۔ علاوہ ازیں یہ خبر ایک ایسے مرحلے پر سامنے آئی ہے‘ جب افغان طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرات چل پڑے ہیں اور دونوں جانب سے ان کی کامیابی کے بارے میں مثبت امید ظاہر کی جا رہی ہے‘ اور یہ تاثر عام ہے کہ افغان طالبان کو ملا عمر کی حمایت حاصل ہے؛ چنانچہ یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ایک رائے یہ ظاہر کی گئی ہے کہ مذاکرات کے اس اہم ترین مرحلہ پر یہ خبر طشت از بام کرنے کا مقصد افغان طالبان کو دفاعی پوزیشن میں لانا ہے۔ یہ رائے بھی دی جا رہی ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر لا کر طالبان کو منقسم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ اس حوالے سے متضاد آرا ظاہر کی جا رہی ہیں‘ اس لیے فی الحال ملا عمر کی ہلاکت کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن اگر وہ واقعی دو سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں‘ تو طالبان کی یہ حقیقتاً ایک بڑی کامیابی ہے کہ وہ اتنا عرصہ اس واقعہ کو پردۂ راز میں رکھنے میں کامیاب رہے۔ اور اگر یہ واقعہ تازہ ہے‘ یعنی ملا عمر کی ہلاکت حال ہی میں ہوئی ہے‘ تو تب بھی دلچسپ بات ہے کہ افغان ذرائع ملا عمر کی طبعی موت کی بات کر رہے ہیں۔ نہ امریکہ اس کا کریڈٹ لے رہا ہے‘ نہ ہی افغانستان کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت اس کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوئی ملا عمر کی ہلاکت کی خبر بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے اور ملا عمر اگر ہلاک نہیں ہوے‘ تب بھی مذاکرات کی کامیابی کے لیے ان کے جوابات تلاش کرنا بے حد ضروری ہے۔ سوالات یہ ہیں: کیا طالبان اب اپنا اتحاد برقرار رکھ پائیں گے؟ آیا اس خبر کے سامنے آنے کے بعد بھی مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مذاکرات کی ناکامی اور کامیابی‘ دونوں صورتوں میں طالبان منقسم ہو کر کمزور ہو جاتے ہیں یا متحد رہتے ہیں؟ اور یہ کہ افغانستان کے مستقبل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اگر طالبان کا اتحاد برقرار رہتا ہے تو مذاکرات کی کامیابی کی امید برقرار رہے گی۔ اگر طالبان کا اتحاد برقرارنہیں رہتا تو ظاہر ہے کہ منقسم صورت میں وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے
بہرحال طالبان کے سرغنے ملا عمر کی موت کے اعلان کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوسرے دور کے مذاکرات ملتوی کردئے گئے ہیں۔ مذاکرات کو موخر کرنے کے بڑے گمبھیر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ طالبان گروہ تین دھڑوں کا مجموعہ ہے جو کوئٹہ کونسل، حقاقی گروہ اور حکمت یار گروہ سے عبارت ہیں۔ طالبان کے سرغنے ملا عمر ہمشیہ سے اس کوشش میں تھے کہ وہ ان تمام گروہوں کو طالبان کے پرچم تلے لے آئيں۔ حکومت کابل اور ان گروہوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے بعد ان گروہوں میں بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے دور کے مذاکرات مری میں منعقد ہوئے تھے جن پر فریقین نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ آج جمعے کو طالبان اور حکومت کابل کے مابین دوسرے دور کے مذاکرات ہونے والے تھے تاہم طالبان کے سرغنے ملاعمر کی موت کی خبر سے نہ صرف یہ مذاکرات ملتوی ہوگئے ہیں بلکہ ممکن ہے کہ طالبان میں بھی اس واقعے سے کافی تبدیلیاں آجائيں دفتر قطر سے وابستہ طالبان عناصر نے حکومت کابل سے مذاکرات کی مخالفت کی ہے جبکہ کوئٹہ کونسل نے دفتر قطر سے وابستہ طالبان دھڑے کی حکومت کابل سے مذاکرات میں شرکت کی مخالفت کی ہے۔ان مخالفتوں سے پتہ چلتا ہےکہ طالبان کے اندر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں معاصر افغانستان اسٹڈیز سنٹر کے سربراہ عمر ناصر کہتے ہیں کہ ملاعمر کی موت سے طالبان مزید کمزور ہونگے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا ملا عمر کا کوئی باقاعدہ وجود تھا بھی یا نہیں اور اگر اس کے وجود کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اتنے عرصے میں طالبان کے اتنے اہم فیصلے کون کرتا رہا ہے مذید یہ کہ اس ہلاکت کا افغانستان میں داعش کے وجود سے بھی کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں اور اس تمام صورت حال سےداعش کو کیا فائدہ مل سکتا ہے