الوقت- علاقے کے تعلق سے سعودی عرب کی پالیسیاں بڑی حد تک واقعات و حالات کی تابع ہوتی ہیں اور ان میں کوئي جدت نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں علاقے کے واقعات و حالات کے پیش نظر آل سعود نئي نئي پالیسیاں اپناتی ہے۔ پالیسی سازی کی اس روش کے نتیجے میں گذشتہ پانچ دہائيوں میں ریاض میں خارجہ پالیسیاں بنانے کا ایک مرکز وجود میں آگيا جس نے تدوین شدہ، ترجیحات پر مشتمل اور خاص اھداف کے پیش نظر بتدریج پالیسیاں بنانےلگا ہے۔جن مسائل کی بنا پر سعودی عرب علاقے اور عالم اسلام کی رہبری کے دعوے کرتا ہے ان میں ایک مسئلہ فلسطین بھی ہے۔ مسئلہ فلسطین چونکہ ایک اسلامی، عربی مسئلہ ہے اور مشرق وسطی کے مسائل میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے لھذا سعودی عرب نے اس مسئلے کے سہارے علاقے کی قیادت کا پرچم اٹھالیا ہے۔ بحران فلسطین کے بارےمیں سعودی عرب کی جدت پسندانہ تجویز شاہ عبداللہ کی تجویز تھی جسے دوہزار دو میں عرب لیگ نے مشرق وسطی میں امن کی عرب تجویز کانام دیا ہے۔
مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف بھی علاقے کے تعلق سے آل سعود کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کے تعلق سے سعودی عرب کی عملی پالیسیوں کو دو زمانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا دورصیہونی حکومت کے قیام سے ستر کی دہائي تک کا ہے
اس دور میں سعودی عرب نے علاقے کے ملکوں کے ساتھ رسی کشی کے نتیجے میں عام مسلمانوں کی پالیسی اپنائي جو صیہونی حکومت کے خاتمے سے عبارت تھی۔ آل سعود کم از کم میڈیا کی سطح پر اس پالیسی کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ آل سعود اس زمانے میں صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے والے ملکوں کی مدد بھی کرتی تھی لیکن انیس سو سڑسٹھ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں چھے عرب ملکوں کی شکست اور اسکے بعد سامنے والے حالات کے مطابق مسئلہ فلسطین کے تعلق سے آل سعود کی پالیسیوں میں تبدیلیاں آتی گئيں۔
انیس سو سڑسٹھ کے بعد کے دور کو ہم دوسرا دور کہیں گے۔ دوسرے دور میں آل سعود نے صیہونی حکومت کے ساتھ صلح کرنے کا راگ الاپنا شروع کیا۔اس کا سب سے بڑا سبب صیہونی حکومت کے ساتھ مصر کا صلح کرنا تھا۔ عرب ملکوں کی پے درپے شکستوں اور شاہ فیصل کی موت بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی وجہ سے آ ل سعود نے صیہونی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا نا شروع کیا۔ تاہم سب سے اہم سبب مصر کا صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمتی محاذ سے نکلنا تھا۔ سعودی عرب نے کوشش کی کہ مسئلہ فلسطین کے تعلق سے اسکی بدلتی پالیسوں کو مذہبی رنگ بھی دے دیا جائے، اسی وجہ سے دربار آل سعود سے وابستہ مفتیوں نے سیکڑوں فتوے جاری کردئے۔ ان فتوؤں میں اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ساتھ صلح کرنے کے بارے میں بادشاہ کے فیصلے کو حجت قراردیا گيا تھا۔ واضح رہے ان مفتیوں کے نزدیک بادشاہ ولی امر ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں سلفی فقہ کی اساس پر بادشاہ امیرالمومنین اور ولی امور ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے تعلق سے آل سعود کے موقف میں تبدیلیوں کا باعث بننے والے امور میں ایک ایران میں اسلامی انقلاب کا کامیاب ہونا اور اس کے بعد صدام کا کویت پر قبضہ کرنا شامل ہے۔ ان دو امور سے قبل اگر ہم مشرق وسطی کو ایک سسٹم قراردیں تو فلسطین اس کا مرکز اور محور نظر آئے گا اور اسی مسئلے پر ساری پالیسیاں بنتی تھیں ساری تبدیلیاں آتی تھیں لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد علاقے میں ایک مسئلے کی محوریت و مرکزیت ختم ہوگئي اور علاقے میں متعدد بحرانوں نے سراٹھالیا۔ ان مین ایک بحران ایران پر مسلط کردہ صدام کی جنگ تھی اور دوسرا بحران کویت پر صدام کا قبضہ تھا۔ان مسائل سے علاقے کے سارے معاملات درہم برہم ہوگئے اور ایک نئي صورتحال سامنے آئي۔
کویت پر عراق کے سابق خونخوار ڈکٹیٹر صدام کی جارحیت اور قبضے کےبعد سے پی ایل او کی سازشی ذہنیت کھل کر سامنے آئي اور اسکے بعد عرب ملکوں نے میڈریڈ کانفرنس اور اسکے بعد اوسلو کی قرارداد کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ سعودی عرب نے میڈریڈ اور اوسلو قراردادوں کے بعد کی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان میں مشہور کانفرنسیں دوہزار سات کی میڈریڈ اور آناپولیس کانفرنسیں ہیں۔
فلسطین میں تحریک انتفاضہ کے شروع ہونے کے بعد سعودی عرب نے فلسطین فنڈ قائم کیا۔ اس مرتبہ بھی ان کاھدف فلسطین کی مدد کرکے قانونی حیثیت حاصل کرنا تھا۔