الوقت- اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ عالمی برادری ، شام کے عوام کی اذیت و تکلیف بڑھنے پر شرمندہ ہے۔ اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے شام کے بارے میں ایک اندوہناک رپورٹ جاری کی تھی ۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے شامی پناہ گزین (António Guterres ) نے شام کی صورت حال سے متعلق منعقدہ سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں خبردار کیا کہ مسلسل خانہ جنگی کے نتیجے میں شام میں اقوام متحدہ کے اندازوں سے کہیں زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد اور انہیں درپیش مشکلات کے اعداد و شمار خوفناک حد تک باعث تشویش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 38 لاکھ شامی شہری اپنا ملک اور گھر بار چھوڑ کر لبنان اور اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کسی ایک ملک کے پناہ گزینوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ یو این عہدیدار کا کہنا تھا کہ شامی پناہ گزینوں کی مشکلات اور انہیں درپیش بحران اتنا سنگین ہے کہ عالمی برادری کی ریلیف کی مساعی نہ ہونے کے برابر دکھائی دے رہی ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کے شامی بچوں کی ایک پوری نسل تباہی سے دوچار ہے۔ ہم جیسے جیسے پناہ گزینوں کی مدد کی کوشش کرتے ہیں ہمیں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے عالمی برادری سے شامی پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانے والے ممالک بالخصوص لبنان اور اردن کی بھر پور مدد کی اپیل کی اور کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد سے پڑوسی ملکوں کے صحت کے شعبوں اور بنیادی انفراسٹرکچر پر بہت دبائو پڑ رہا ہے۔ گوٹیرس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کو لبنان اور اردن کے علاوہ دوسرے ملکوں میں ایڈجسٹ کرانے کے لیے بھی اقدامات کرے تاکہ صرف چند ملکوں پر شامی پناہ گزینوں کا بوجھ نہ پڑے۔ انہوں نے یورپی ممالک اور خلیجی ریاستوں پر بھی زور دیا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے ہاں عارضی پناہ فراہم کرنے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2011 ء کے بعد سے شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں 3 ملین سے زائد شامی شہری اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بحران شام کے بارے میں جنیوا اعلامیے کو تین سال مکمل ہونے کے موقع پر منگل تیس جون کو ایک بیان جاری کرکے اس بحران کے سلسلے میں عالمی برادری کی تساہلی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کے لئے متصادم فریقوں اور ممالک کے مزید تعاون اور کوشش کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے گذشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران اس ملک کی بنیادی تنصیبات کی بڑے پیمانے پر تباہی اور دسیوں ہزار شامی شہریوں کے جانی نقصان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کے ملکوں اور متصادم فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور شام کے امور میں اس ادارے کے خصوصی نمائندے کے ساتھ تعاون کریں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے داعش اور النصرہ محاذ جیسے دہشتگردوں کے ہاتھوں شام کے بعض علاقوں پر قبضے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کا تمدن اور ثقافتی ورثے خطرے میں ہيں اور بیرونی حملوں کے تسلسل نے نہ صرف شام کو تقسیم کے خطرے سے دوچار کردیا ہے بلکہ مشرق وسطی کے غیرمستحکم علاقے کے لئے سنگین خطرہ پیدا کردیا ہے۔
علاقے کے عرب اور غیر عرب ممالک نیز بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے شام پر مسلط کردہ بحران کے بارے میں عالمی برادری کی بے عملی پر بان کی مون کی شرمندگی ایسے عالم میں سامنے آئی ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک نہایت اہم بین الاقوامی ادارے کی حیثیت سے دنیا کے مختلف علاقوں سے دہشتگرد گروہوں کی شام میں دراندازی کے سلسلے میں کوئي خاص اقدام انجام نہیں دیا ہے۔
شام کے وزیرخارجہ ولید المعلم کے بقول اس ملک کی حکومت کی جانب سے سعودی عرب ، قطر، ترکی، اردن اور امریکہ کے تعاون سے شام میں دہشتگردوں کی دراندازی کے سلسلے میں اقوام متحدہ میں بار بار احتجاج کے باوجود ، اس ادارے نے دہشتگردوں کی دراندازی اور ان کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد روکنے کے لئے اب تک کوئي قابل توجہ اقدام نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت شام نے ملک میں بحران شروع ہونے کے بعد سے ہی صورت حال بہتر بنانے کا ارادہ رکھنے والے اداروں اور ممالک کے ساتھ تعاون کے لئے آمادگی کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تاکید بھی کی تھی کہ صورت حال میں بہتری لانے کے لئے دہشتگردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد رکنا ضروری ہے اور عالمی برادری بعض طاقتوں کے زيراثر آئے بغیر، اس ملک کے بحران کے لئے کوئي مناسب طریقہ کار اختیار کرے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل صرف زبانی بیانات اور رسمی مذمت پر اکتفا کرتے ہیں یا چار سال سے زیادہ عرصے پر محیط شام کی اس جنگ اور تباہی کو روکنے کے لئے کوئی عملی قدم بھی اٹھاتے ہیں یا نہیں؟۔