الوقت- ایران اور پانچ جمع ایک ممالک کے درمیان ایران کے ایٹمی مذاکرات کے حوالے سے ڈیڈ لائن آخری مرحلے میں ہے کیا معاہدہ بھی آخری مراحل میں ہے یا نہیں ابھی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی تاہم بعض ایرانی حکام کے بیانات سے کچھ نہ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران اور گروپ پانچ ایک کے ایٹمی مذاکرات تعطل سے باہر نکل آئے ہیں-ایران کی مجلس شورائے اسلامی کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نوذر شفیعی نے کہا ہے کہ ایران اور گروپ پانچ ایک کے ایٹمی مذاکرات تعطل سے نکل گئے ہیں- انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ویانا سے تہران آنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ کوئی نیا پیکج لے کر ساتھ آئے ہیں- انہوں نے کہا کہ اس سے ایسا لگتا ہے کہ ویانا میں مذاکرات کی فضا پرامید فضا بن چکی ہے اور جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات تعطل کا شکار نہیں ہیں- ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ اس کمیشن کے اراکین کو ویانا اجلاس کے اختتام کے بعد ایٹمی مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا اور پھر رائے عامہ کو اس سے باخبر کیا جائے گا- در ایں اثنا ایران کی مجلس شورائے اسلامی کے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کمیشن کے رکن محمد صالح جوکار نے بھی کہا کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ سمجھوتے کی ضرورت ہے- انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو اپنی حقیقی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایران کے تعاون کی ضرورت ہے- محمد صالح جوکار نے کہا کہ علاقے میں امریکی سیاست بند گلی میں پہنچ چکی ہے اور وہ سیاسی تعطل سے دوچار ہے-دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دو دن تک ویانا میں پانچ جمع ایک گروپ کے بعض وزرا خارجہ سے مذاکرات کئے اور اتوار کو تہران واپس آگئے ہیں۔ محمد جواد ظریف نے ہفتے اور اتوار کو ویانا میں اپنے فرانسیسی ، جرمن، برطانوی اور چینی وزیر خارجہ اور یورپی یونین میں خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ فڈریکا موگرینی سے ملاقات کی۔ انہوں نے حتمی ایٹمی معاہدے کے لئے آخری اقدامات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ واضح رہے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ویانا سے تہران روانہ ہونے سےقبل کہا تھا کہ ان کی تہران واپسی پہلے طے شدہ پروگرام کےتحت ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا تیس جون تک ایران اور پانچ جمع ایک گروہ کے درمیان حتمی ایٹمی معاہدہ طے پاجائے گا؟ ابھی اس سوال کا کوئي یقینی جواب نہیں دیاجاسکتا البتہ اس بارے میں مختلف حکام کے بیانات مثبت اور امید دلانے والے ہیں۔ فڈریکا موگرینی نے اتوار کو ویانا میں مذاکرات کے اختتام پر صحافیوں سے کہا تھا کہ ہم حتمی معاہدے سے قریب ہوگئے ہیں اور یہ ایک اچھا معاہدہ ہے۔ درایں اثنا جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہےکہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ حتمی معاہدے سے صرف ایک قدم دور ہیں۔ روسی اور امریکی سفارتکاروں نے بھی کہا ہے کہ ایٹمی مذاکرات میں اچھی پیشرفت ہوئي ہے۔
واضح رہے ویانا میں ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ تیس جون ایٹمی معاہدہ کرنے کی ڈیڈ لائين ہے۔ اس بات میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے مذاکرات نہایت کٹھن اور خاصی پیچيدگيوں کے حامل ہیں لھذا اٹھارہ ماہ کے مسلسل اور تفصیلی مذاکرات کے بعد حتمی معاہدے کا متن تیار کرنا وہ بھی ایسے حالات میں کہ مغربی ممالک بار بار رکاوٹیں پیدا کررہے تھے ایک دشوار کام ہے۔ اسی وجہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی ڈیڈ لائین کو اچھے معاہدے پر فوقیت نہيں دی جاسکتی۔ حتمی ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اب کوئي فنی مسئلہ رکاوٹ نہیں ہے بلکہ سیاسی عزم درکار ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے ماضی کے کرتوتوں کی وجہ سے ہرگز قابل اعتماد نہیں ہیں۔ وہ یہ دعوے تو کررہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن ان کے یہ دعوے مکمل طرح سے کھوکھلے اور بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں، اس کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر معاہدہ ہوبھی جائے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوجائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ مغرب کی سیاسی چالیں بھی ختم ہوجائيں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مغربی طاقتیں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو اپنے لئے بڑی کامیابی اور ایران کی شکست قرار دینے کی کوشش کریں گي۔کسی بھی صورت میں اگر کوئي معاہدہ ہونے والا ہے تو اس میں دو طرفہ اعتماد کی اساس پر ایران کے ایٹمی حقوق کی ضمانت دیا جانا ضروری ہوگا۔ یاد رہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ نے چوبیس نومبر دوہزار تیرہ کو جینوا میں عبوری معاہدہ کیا تھا جس میں کہا گيا ہے کہ این پی ٹی معاہدے کی بنیاد پر اعتماد سازی کی جائے گي اور ایران کے مکمل ایٹمی حقوق کے مطابق اس کے ایٹمی پروگرام کے جاری رہنے کے لئے نقشہ راہ تیار کیا جائے گا۔ اس اصول کے مطابق اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قراردینے کےلئے اعتماد سازی پرمبنی معاہدے تک پہنچنا کوئي ناممکن کام نہیں ہے، البتہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن فریقوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ حتمی معاہدے سے محض ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فریقین میں سے کون اس کا پہلے اعلان کرتا ہے۔