الوقت- حقانی دہشتگرد نیٹ ورک میں کئي تکفیری دہشتگرد گروہ شامل ہیں۔ اس گروہ کا نام مولوی جلال الدین حقانی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ مولوی جلال الدین حقانی پاکستان میں دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل۔ البتہ اب جلال الدین بوڑھے ہوچکے ہیں اور ان کے بیٹے سراج الدین اس گروہ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ حقانی دہشتگرد گروہ کا ہیڈ کواٹر کہاں ہے یہ کسی کو نہیں معلوم البتہ افغانستان کے مشرقی صوبوں پکتیا، پکتیکا اور خوست میں یہ گروہ سرگرم عمل ہے۔ افغانستان کے یہ علاقے پاکستان کے قبائيلی علاقوں سے ملے ہوئے ہیں۔ ان ہی علاقوں کو حقانی دہشتگرد گروہ کامرکز سمجھا جاتا ہے۔
حقانی دہشتگرد نیٹ ورک میں درج زیل عناصر کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابراہیم عمری، میران شاہ میں ديگر ممالک کے لئے اس گروہ کا کوآرڈی نیٹر ہے۔ حاجی خلیل کا تعلق زدران قبیلے سے ہے۔ مولوی عبدالرحمن زدران آپریشنل انچارج اور حقانی کے ماموں کا بیٹا ہے۔ حانی مالی خان اور اصلحان خان جلال الدین کے بھائي ہیں۔ حاجی مالی خان کو نیٹو کو دوہزار گيارہ میں گرفتار کرلیا تھا۔قاری یحی حقانی کا داماد ہے، سراج الدین حقانی، حقانی کا بڑا بیٹا اور اس کا جانشین ہے۔ بدرالدین، خلیل احمد، بصیرالدین حقانی کے بیٹے ہیں اور نچلی سطح کے کمانڈر ہیں۔ نصرالدین حقانی اپنے باپ کا مترجم ہے۔نصیرالدین حقانی بنی الاقوامی تعلقات اور مالی امداد شعبے کا سربراہ ہے۔ محمد عمر بھی حقانی کا ایک بیٹا تھا جو دوہزار دس میں ہلاک ہوگيا تھا۔ یہ افراد پاکستان میں دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ اس وقت حقانی گروہ میں دس سے پندرہ ہزار دہشتگرد شامل ہیں۔
منصور نیٹ ورک کے سربراہ مولوی محمد اسماعیل ہیں اور اس میں جانے پہچانے لوگ عبداللطیف منصور، سیف الرحمن منصور شامل ہیں۔ انہوں نے دوہزار دو میں بن لادن کو گرفتار کرنے کی امریکہ کی کاروائياں ناکام بنادی تھیں۔ دہشتگردی کا یہ نیٹ ورک افغانستان کےعلاقوں غزنی اور جنوب مشرق میں سرگرم عمل ہے۔ منصور نیٹ ورک شروع سے ہی حقانی دہشتگرد گروہ کا اتحادی رہا ہے۔ حقانی خاندان پشتون ہیں اور حنفی المسلک ہیں جبکہ دیو بندی عقائد رکھتے ہیں۔ البتہ آل سعود کے ساتھ حقانی خاندان کے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے وہ بھی وہابیت کے پیرو کہے جاسکتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک اسامہ بن لادن ہی کی طرح ساری دنیا میں اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی بنا پر نام نہاد جہاد کا قائل ہے۔
طالبان نے انیس سو پچانوے میں کابل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے پکتیا کا محاصرہ کرلیا تھا۔ اس زمانے میں جلال الدین حقانی پکتیا کے سب سے بڑی جنگي کمانڈر مانے جاتے تھے، انہیں زدران قبیلے کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے طالبان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد حقانی کی حمایت جاری رکھنے کے لئےانہيں سرحدی اور قبائلی امور کی وزارت سونپ دی تھی۔اگرچہ حقانی نیٹ ورک نے اپنے دائرہ میں اپنا اقتدار باقی رکھا تھا لیکن ملا عمر کو اپنا سربراہ سمجھتا ہے۔ ملا عمر بھی حقانی دہشتگرد نیٹ ورک کے اثر ورسوخ اور عالمی سطح پر اس کی توانائيوں سے بخوبی واقف ہے لھذا ملا عمرکی طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ایک دوسرے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی ان دونوں دہشتگرد گروہوں میں کچھ تنظیمی امور باقی ہیں۔ دونوں تنظیموں میں دوہزار دس کے معاہدے کے مطابق حقانی نیٹ ورک کی مالی اور لاجیسٹیک سپورٹ کوئٹہ شوری اور اس کے مالی کمیشن سے حاصل ہوتی ہے۔
دوہزار تین اور دوہزار چار میں حقانی کوئٹہ کونسل میں ایک سینئر اور اہم رکن مانے جاتے تھے۔ چند مہینوں کے بعد ملا عمر نے مختلف علاقوں کے کمانڈنگ اسٹرکچر کا اعلان کیا اور جلال الدین حقانی کو میران شاہ اور مشرقی افغانستان کا کمانڈر مقرر کیا۔ ان کے زیر اثر پکتیا، پکتیکا، خوست اور گردیز صوبے آتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک دو وجہ سے کوئٹہ کونسل کا بنیادی رکن باقی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ علاقائي لحاظ سے جنوبی افغانستان میں اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کےلئے طالبان کے لئے حقانی نیٹ ورک کی نہایت اہمیت ہے۔ دوسرے یہ کہ کوئٹہ کونسل کو مختلف امور کی انجام دہی کے لئے حقانی نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔
امریکہ کا کہنا ہےکہ حقانی دہشتگرد نیٹ ورک پاکستانی آئي ایس آئي کے مفادات میں کام کرتا ہے لیکن پاکستان نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ امریکیوں نے گذشتہ دو برسوں میں اپنے ڈرون طیارون سے حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان امریکہ کے ڈرون حملوں پر احتجاج کررہا ہے۔