الوقت- ترکی کی خارجہ پالیسی ایک گورکھ دھندے کی مانند ہے جسکا صحیح ادراک اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس ملک کی قیادت ایک طرف خلافت عثمانیہ کے احیا کی خواہشمند ہے تو دوسری طرف یورپی یونین کا ممبر بننے کے لئے ہلکان ہورہی ہے ایکطرف معتدل اسلام کی حمایت کرتی ہے تو دوسری طرف شام میں تکفیری دہشتگردوں کی مکمل پشتپناہی کو بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے ۔اس ملک کی خارجہ سیاست کے اصلی معمار داؤد اوغلو سمجھے جاتے ہیں جو آجکل وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیں ایک طرف یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ہمسایہ ملک سے کوئی کشیدگی نہیں رکھنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے مختلف اقدامات کشیدگی کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھاوا دے رہے ہیں۔ عالم اسلام ،فلسطین اور صیہونی حکومت کے حوالے سے انکی پالیسیوں مین تضاد ہے جسکو ہرباشعور شخص بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے لیان اسکے باوجود رجب طیب اور انک پارٹی اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار کہلوانے میں بھی فخر محسوس کرتی ہے حال ہی میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤوش اوغلو نے صیہونی حکومت کے ساتھ اس ملک کے خفیہ رابطے کی تصدیق کی ہے۔
ترکی سے شائع ہونے والے اخبار حریت اور اسرائیل سے شائع ہونے والے روزنامہ ہاآرتص نے اس خبر کو کوریج دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی اور اسے معمول پر لانے کے لئے مذاکرات شروع ہو چکے ہيں۔
بعض سیاسی ماہرین نے چند وجوہات کی بنیاد پر ترکی اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے سفارتی صلاح و مشورے پھر سے شروع ہونے کا امکان ظاہرکیا ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ترکی میں عام انتخابات اب ختم ہو چکے ہيں اور عدالت و ترقی پارٹی جسے اس سے پہلے تشویش تھی کہ صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کا انتخابات کے نتائج پر منفی اثر پڑے گا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اب پہلے سے زیادہ آسانی سے غور و فکر کر رہی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ترک رائے عامہ کی اکثریت اب بھی صیہونی حکومت کو اپنے ملک کا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔
ابھی حال ہی ميں استنبول کی قدیر ہاس یونیورسٹی کی جانب سے انجام پانے والے سروے رپورٹ کے مطابق ترکی کے عوام صیہونی حکومت کو اپنے ملک کے لئے سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ یہ سروے رپورٹ ٹائم ٹوڈے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ اسی جیسا ایک سروے دوہزار تیرہ میں ہوا تھا جس کے مطابق ترکی کے اکتالیس فیصد عوام امریکہ کو اور سینتیس فیصد صیہونی حکومت کو اپنے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کےلئے ترکی پر امریکہ کا دباؤ بھی کافی موثرواقع ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ اب بھی علاقے کے اپنے دو قدیمی اتحادی ترکی اور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی اہمیت اور ان کے درمیان تعلقات معمول پر لانے پر تاکید کرتا ہے۔
امریکہ ، بالخصوص موجودہ حالات میں مشرق وسطی کے تیزي سے بدلتے ہوئے حالات میں علاقے میں اپنے مد نظر نظام قائم کرنے کا جائزہ لے رہا ہے۔
اسی طرح ترک حکام کی نظر میں ترکی اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری انقرہ واشنگٹن تعلقات کے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
بالخصوص ایسے حالات میں جب عدالت و ترقی پارٹی کے رہنما اور خود صدر اردوغان پارٹی کی پوزيشن میں کمزوری اور ترک حکومت کے خلاف حالیہ خطرے کو بیرونی سازشوں کا نتیجہ سمجھتے ہيں۔ رجب طیب اردوغان نے بارہا ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کسی بھی کوشش کا سرچشمہ امریکہ اور صیہونی حکومت کو قرار دیا ہے۔
اردوغان نے اس سے پہلے دوہزار تیرہ میں ترکی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے یا پارک گزی کے واقعے یا مالی بدعنوانی کے اسکینڈل کو ترک رہنماگولن کے حامیوں اور بیرونی عناصرکی ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
مختصر یہ کہ ترکی کو ایک طرف علاقے بالخصوص شام کے حالات کو اپنے حق میں موڑنے کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب مشرق وسطی میں انقرہ کی غلط پالیسیوں کے باعث اسے علاقے کے مسلمانوں اور ممالک کے خود سے دور ہو جانے کی مشکل کا بھی سامنا ہے۔ ترکی اپنے اقصتادی مسائل پر قابو پانے کے لئے، اپنی سرحدوں کے اندر سے یورپی ممالک تک انرجی کے لئے ٹرانزٹ راستہ قائم کرنے کا خواہاں ہے ، جو صیہونی حکومت کی مدد اور اس کے زير اثر اقتصادی ذرائع کی مالی حمایت سے ہی ممکن ہے۔
ان حالات میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا ترکی کا اشارہ ، قابل پیشگوئي تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ترکی کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے اپنی رائے عامہ کو کس طرح مطمئن کرسکے گی وہ بھی ایسی حالت میں جب صیہونی حکومت نے، تل ابیب کے ساتھ تعلقات پر معمول پر لانے کےلئے مرمرہ جہاز کے پسماندگان کو ہرجانہ ادا کرنے یاترکی سے باقاعدہ معافی مانگنے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے پر مبنی ترکی کی شرطوں کے سلسلے میں واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ یہ ترکی کی مجبوری ہے یا منافقت اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے کا تاہم فلسطینی کاز سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو اس سے دلی افسوس ہوگا کہ ترکی ایک ایسی غیرقانونی ریاست سے تعلقات بڑھا رہی ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے قبلہ اول پر قابض ہے بلکہ گردن گردن تک مظلوم فلسطینیوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔