الوقت- پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت آنے کے بعد حالات بہتر ہورہے ہیں، افغان حکومت امن کے لئے طالبان سے مذاکرت کا راستہ اختیار کررہی ہے لیکن کچھ طالبان گروپس مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور کچھ نہیں، ان مذاکرات میں پاکستان کا کردار صرف سہولت کار کا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام گزشتہ 30 سے زائد سالوں سے حالت جنگ میں ہے اور انھیں امن اور ترقی کی بہت ضرورت ہے، موجودہ افغان حکومت کو اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کوئی بھی اقدام اٹھانے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان مزید یکجہتی کے لئے کابل اسلام آباد سیکورٹی و انٹیلیجنس معاہدے کو اہم قرار دیا ہے۔
سرتاج عزیز نے افغان صدر کے کابل اسلام آباد سیکورٹی اور انٹیلیجنس معاہدے پر دستخط نہ ہونے پر مبنی اعلان کے برخلاف تاکید کی ہے کہ اس معاہدے پر افغانستان اور پاکستان کے انٹیلیجنس اداروں نے دستخط کئے ہیں۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ اس سے قبل افغانستان کی قومی سلامتی کونسل نے بھی کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اب تک اس طرح کے کسی معاہدے پر دستخط نہيں ہوئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کابل اسلام آباد کے درمیان سیکورٹی اور انٹیلیجنس معاہدے پر دستخط کی خبر منظرعام پر آتے ہی افغانستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں ، شخصیتوں اور حکام کی جانب سے منفی ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا تھا اور افغان حکام نے بھی اس سلسلے میں مختلف موقف اختیار کیا۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان معاہدے کی افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے کے ترجمان سمیت بعض حکام کی جانب سے تصدیق کے باوجود افغان صدر محمد اشرف غنی نے کچھ دنوں پہلے اعلان کیا تھا کہ ابھی یہ معاہدہ متن تیار کئے جانے کے مرحلے میں ہے اور ماہرین اس پر غور کر رہے ہيں ۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے کے ترجمان حسیب صدیقی نے تقریبا دو مہینے پہلے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھاکہ اس معاہدے پر کابل اور اسلام آباد کے درمیان انٹیلیجنس تعاون میں فروغ کی غرض سے دستخط ہوئے ہيں اور اس معاہدے میں عسکری، سیاسی اور اقتصادی امور سمیت علاقے میں دہشتگردی کے مشترکہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے انٹیلیجنس تعاون کے عمل کی حمایت بھی شامل ہے۔
افغانستان کے عوام کے ذہن میں پاکستان کی ماضی کی منفی کارکردگی اور اس کے غیر شفاف اقدامات اس بات کا باعث بنے ہيں کہ افغانستان کے صحافتی اور سیاسی حلقے اور عوام، اسلام آباد کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعاون کے معاہدے پر اعتماد نہ کریں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی و انٹیلیجنس تعاون کے معاہدے پر دستخط کے بارے میں سرتاج عزیز کے بیانات ایسے عالم میں سامنے آئے ہيں کہ افغانستان کی قومی اتحاد حکومت نے ابھی اس سلسلے میں اپنے واضح موقف کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ایسے عالم میں جب افغانستان کے بعض حکام نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان سیکورٹی اور انٹیلیجنس تعاون کے معاہدے پر دستخط کی تصدیق کی ہے اس سلسلے میں افغان حکومت کی مبہم پالیسی جاری رہنے سے ممکن ہے محمد اشرف غنی کے خلاف شدید تنقیدیں شروع ہوجائيں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ انٹیلیجنس تعاون کے سمجھوتے پر افغانستان کے اراکین پارلیمنٹ کی ناراضگی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے بارے میں سرتاج عزیز کے بیانات کے بعد افغانستان کی پارلیمنٹ ، قومی سلامتی کونسل کے ادارے کے سربراہ کوباقاعدہ مواخذہ کے لئے طلب کر لے۔
یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ افغانستان کی قومی اتحاد حکومت ، پاکستان کے ساتھ انٹیلیجنس معاہدے کو خفیہ رکھ کر اس سلسلے میں اراکین پارلیمنٹ کے منفی نظرئے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
البتہ یہ مد نظر رہے کہ افغان پارلیمنٹ کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کے حق میں ووٹ دینے پر بعض اراکین پارلیمنٹ کے اظہار پشیمانی کے بعد اب پاکستان کے ساتھ سیکورٹی اور انٹیلیجنس تعاون کی حمایت حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہوگا۔افغانستان کے اندرونی حلقے بھی اسی شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ دونوں ملکوں کی قیادت آخر کیا فیصلہ کرتی ہے اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے