الوقت- آل سعود کے وزیردفاع محمد بن سلمان قطر کا دورہ کرنے کےبعد روس روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ ماسکو میں روس کے صدر ولادیمیر پوتین سے ملاقات کریں گے۔ روس اور سعودی عرب مشرق وسطی کے بحرانوں کے تعلق سے جیو پالیٹیکل نقطہ نظر سے اختلافات رکھتے ہیں۔دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات بس رسمی سے ہیں اور ان ملکوں کےحکام نے ایک دوسرے کے ملکوں کا بہت کم دورہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں آل سعود کے وزیر دفاع کا دورہ ماسکو کا کئي پہلوؤں سےجائزہ لیا جاسکتا ہے۔
الف: محمد بن سلمان کے دورہ ماسکو کو آل سعود کی خارجہ پالیسی میں تنوع لانے کی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سلسلہ ملک عبداللہ کے انتقال کےبعد سے شروع ہوا ہے۔ دراصل سعودی عرب کے حق میں امریکہ کی بے رغبتی سے واشنگٹن کا یہ کلاسیکل تابع دار نئي طاقتوں جیسے فرانس، چین اور روس کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔
ب: سعودی عرب کے وزیر دفاع کا دورہ ماسکو روس سے ہتھیار خریدنے کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے۔ محمد بن سلمان ہوسکتا ہے اپنے ملک اور دیگر عرب ملکوں جیسے مصر کے لئے ہتھیار خریدنے گئے ہوں۔ اگرچہ سعودی عرب زیادہ تر امریکہ، یورپی ملکوں اور کسی حد تک چین سے ہتھیار خریدتا ہے لیکن آل سعود ضرورت کے وقت روس کو مراعات دے کر اس کی حمایت خریدنا چاہتا ہے۔میڈیا نے خاص طور سے اس مسئلے کا ذکر کیا ہے کہ آل سعود کے وزیر دفاع کا دورہ ماسکو دراصل ایران کے ساتھ مجوزہ ایٹمی معاہدے میں رکاوٹیں ڈالنے کےلئے بالواسطہ طریقے سے روس کو بھاری رقومات یا دوسرے الفاظ میں رشوت دینا ہے۔
ج: تیسری بات یہ ہےکہ شاید آل سعود روس سے ایٹمی ری ایکٹر خریدنا چاہتی ہے۔ حرمین و شریفین کے غاصب خاندان نے اس سے پہلے فرانس اور جنوبی کوریا سے ایٹمی ری ایکٹر خریدنے کی کوشش کی تھی اور اب چاہتا ہے کہ روس بھی اس کا ایٹمی شریک بن جائے۔ دراصل آل سعود امریکہ اور پاکستان سے اپنے ایٹمی عزائم اور توسیع پسندانہ ضرورتوں کی تکمیل میں مایوس ہوچکا ہے۔ اسی وجہ آل سعود کی حالیہ اچھل کود دیکھی جارہی ہے۔
د: چوتھی بات یہ ہے کہ اس دورے کا تعلق بحران یمن اور شام سے بھی ہوسکتا ہے۔ یمن میں آل سعود انصاراللہ اور علی عبداللہ صالح سے قریب فوج کو شکست دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور تین مہینوں سے جاری حملوں میں اسے کسی بھی طرح کی کامیابی نہیں ملی ہے۔ اپنی شرمندگي کو کسی حدتک کم کرنے کے لئے روس کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کررہی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ روس نے یمن کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد شمارہ بائيس سولہ پر غیر جانبداری کا اعلان کیا جس سے آل سعود کے اتحاد کو منصورہادی کی حکومت کو واپس لانے کا موقع مل گيا۔
ان تمام اھداف سے قطع نظر کہ آل سعود ان کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے کہ یا نہیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ روس بھی سعودی عرب کے بارے میں کافی تحفظات رکھتا ہے۔ ان میں بنیادی امر روس کی سرحدوں کے قریب سرگرم عمل دہشتگردوں کے لئے ریاض کی حمایت ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمتیں اور روس پر دباؤ بھی اہم مسائل ہیں۔ واضح رہے تیل کی قیمتیں کم کرنے میں مغربی ملکوں کی سازش میں سعودی عرب کی شمولیت سے بھی روس کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایک اور بات قابل ذکر یہ ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسیوں سے مایوس ہوچکا ہے۔ دراصل نام نہاد بہار عربی کے آغاز سے واشنگٹن عرب ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کے خاتمے کا خاموشی سے نظارہ کررہا ہے اور اسی بات پر آل سعود طیش میں ہے۔
امریکہ سے آل سعود ناراض ہے لیکن مختلف ملکوں کی طرف آل سعود کے رجحان کو امریکہ سے دوری اورعناد سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی نکتے پر الشرق الاوسط کے ایڈیٹر سلمان الدوساری نے بھی تاکید کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ریاض اس بات پر یقین رکھتا ہےکہ اسے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کا حق ہے لھذا ریاض کی جانب سے کرملین سے قریب ہونے کی کوششوں کو مشرق وسطی کے تعلق سے امریکی پالیسیوں پر رد عمل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیاں اسٹراٹیجیک ا تحاد بدستور باقی ہے اور ریاض کی نظر میں اسکی بے حد اہمیت ہے۔