الوقت- حال ہی میں صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتین یاھو نے فلسطین کی نام نہاد خود مختار انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کو پیغام دیا ہے کہ وہ جلد از جلد ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ صیہونی حکومت اور خود مختار انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کی تاریخ بالخصوص دوہوار تیرہ سے دوہزار چودہ تک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہےکہ یہ فلسطینی انتظامیہ تھی جو صیہونی حکومت سے مذاکرات کرنے کو کہتی تھی لیکن صیہونی حکومت صرف اسی موقع پر مذاکرات کے لئے تیار ہوتی تھی جب اسے اپنی توقع سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی امید رہتی تھی۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ کو ساز باز مذاکرات کی کامیابی کا کوئي یقین نہیں ہے اور نہ ہی فلسطین کی خود مختار انتظامیہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے لھذا صیہونی کس چیز کے درپے ہيں جو وہ بار بار مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں؟
اس سلسلے میں چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ امریکیوں کی عدم موجودگي میں جنہوں نے ساز باز مذاکرات سے مایوسی کا اعلان کیا ہے مذاکرات کے دوران صیہونیوں پر دباؤ ڈالنے والا کوئی نہيں رہے گا لھذا وہ جس طرح چاہیں گے مذاکرات کوموڑلیں گے اور من مانی کریں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب مسئلہ فلسطین کو وہ بنیادی اہمیت نہیں رہی جو اسے حاصل تھی بلکہ عالم اسلام میں لڑائيوں سے یہ مسئلہ قدرے بھلادیا گيا ہے لھذا صیہونی ٹولہ عالم اسلام اور عالمی رائے عامہ کی غفلت اور خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اھداف کے حصول کے لئے کچھ بھی کرنے کی توانائي رکھتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان دنوں خود مختار انتظامیہ عالمی اداروں میں اقدامات کرنے کی کوشش کررہی ہے لھذا مذاکرات میں فلسطینی حکام کی موجودگي عالمی اداروں میں صیہونی حکومت کو قدرے ریلیف مل جائے گي اور شاید مذاکرات میں کوئي ایسا معاہدہ بھی مسلط کیا جاسکتا ہے جس کی رو سے فلسطینی ہمیشہ کے لئے عالمی اداروں میں صیہونیوں کےخلاف کوئي اقدام کرنے سے عاجز ہوجائیں۔
جو چیز ان درمیان مبھم رہ جاتی ہے وہ واضح اھداف ہیں جن کے حصول کے لئے صیہونی حکومت مذاکرات کا تقاضہ کررہی ہے۔ ایک طرف سے مصر سے یہ بالواسطہ خبریں مل رہی ہیں کہ مزاحمتی تنظیموں بالخصوص غزہ میں حماس کے ساتھ طویل المدت جنگ بندی کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اگر اس مسئلے کا حزب اللہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ دھمکیوں کے ساتھ ملا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صیہونی حکومت فلسطین کے اندر کے خطروں کو خاموش کرکے مقبوضہ فلسطین کے باہر کے خطروں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ اب اس منصوبہ بندی کے تحت صیہونی حکومت حزب اللہ لبنان، شام یا حتی ایران کے خلاف بھی حملے کرسکتی ہے۔ البتہ ان قیاس آرائيوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قرائن و حالات کا بھی مطالعہ کرنا ضروری ہے کہ اب صیہونی حکومت کا کونسا اقدام سامنے آتا ہے۔
صیہونیوں کو ان دنوں مسلمانوں کی آپسی جنگوں کی وجہ سے چین کاسانس لینے کاموقع ملا ہے اسی وجہ سے قدس شریف کے غاصب اپنی داخلی پوزیشن کو مستحکم بناکر مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کےباہر اپنے جارحانہ اقدامات کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حال ہی میں صیہونی حکومت اور اس کے غیر رسمی قریبی اتحادی آل سعود کے ایک عھدیدار نے یہ تاکید کی تھی کہ ایران، سعودی عرب اور اسرائيل کا مشترکہ دشمن ہے۔