الوقت-پاکستان عالم اسلام کا ایسا ملک ہے جو اپنی افرادی قوت،مذھبی مزاج نیز خطے کے انتہائی اہم اسٹریٹیجک مقام پر ہونے کے باوجود روز بروز تنزلی کا شکار ہے اسے ایک طرف توانائی کے بحران کا سامنا ہے تو دوسری طرف دہشتگردی کی لعنت نے اسے بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔روس کے خلاف امریکہ کی پراکسی وار کے آغاز سے لیکر اب تک اس ملک میں مذہبی دہشتگردی کی وجہ سے اتنا نقصان پہنچا ہے کہ اس ملک کی چولیں تک ہل چکی ہیں دہشتگرد اور انکے سہولت کار اس ملک کی سیاسی مذہبی حماعتوں سمیت ملک کے ہر محکمے اور ادارے میں اتنا گہرا نفوز پیدا کرچکے ہیں کہ ملک کی سیکویٹی ایجنسیاں اپنی کسی بات کو بھی صیغہ راز میں نہیں رکھ سکتیں ۔دہشتگرد ملک کے تمام اہم سیکوریٹی اداروں منجملہ فوج کے ہیڈ کوارٹر تک کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں لیکن اب تک کوئی بھی ان کے راستے میں موثر رکاوٹ کھڑی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ پشاور کے آرمی اسکول پر طالبان کی جانب سے ہونے والے حملے اور اسکولی بچوں کے جاں بحق ہونے کے بعدحکومت پاکستان نے پاکستانی قوم کو یقین دلایا تھا کہ دھشتگردی اور دھشتگردوں کا سنجیدگی سے مقابلہ کیا جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود پاکستان کے شہروں کراچی اور کوئٹہ میں دھشتگردانہ کارروائیاں اب روز کا معمول بن چکی ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کو خاص طور سے ٹارگٹ کئےجانے سے دکھائی دیتاہے کہ دھشتگرد طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور وہ اپنی ان کارروائیوں سے یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ میں حکومت کو شکست ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام کو توقع تھی کہ حکومت پاکستان دہشتگردی سے مقابلے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پورے ملک میں امن وسکون کا ماحول فراہم کرے گی لیکن نہ صرف یہ کہ حکومت پاکستان نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے عوام اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں روزانہ دہشتگردانہ حملوں کا مشاہدہ کررہے ہیں جس نے پاکستان کے عوام کو بہت زيادہ تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔
پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں کی نوعیت میں فرق اور ٹارگٹ کلنگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہے ۔جس کے معنی یہ ہیں کہ دہشتگرد گروہ کہ جنہوں نے پورے پاکستان کی عمدہ طریقے سے شناسائی کی ہے وہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف اپنے وحشیانہ حملے تیز کرکے پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ شروع کرنے کے خواہاں ہيں ۔ یاد رہے کہ سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی اور طالبان پاکستان میں دہشتگرد اور فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والے وہ گروہ ہیں جن کے عناصر اور افراد حکومت پاکستان کے لئے جانے پہچانے ہیں
یہ ایسے میں ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکام نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ دھشتگردوں کے خلاف کارروائی میں وہ سنجیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود دھشتگردوں کی جانب سے اس ملک کے عوام ، سکیورٹی فورسز اور اہم مقامات کو نشانہ بنانے سے دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کو دھشتگردی کے خلاف اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئیے۔ اس لئے کہ دھشتگردانہ اقدامات اوردھشتگردوں کے خلاف جاری کارروائوں کے باوجود بھی دھشتگردانہ اقدامات کے جاری رہنے سے اس ملک کے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ پاکستان ایسے میں دھشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے کہ کئی عرصے سے وہ اپنے روائتی ایٹمی حریف ہندوستان سے مقابلے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس رو سے پاکستان کے عوام کیلئے یہ بات کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو گی کہ اس کی فوج اور سکیورٹی ادارے ایسے دھشتگردوں اور تکفیری گروہوں کے مقابلے میں ناکامی سے دوچار ہوں جو جانے پہچانے ہیں ۔دہشتگرد اس ملک کی سلامتی، امن و امان اور معیشت کو نقصان پہنچارہے ہیں لیکن ملک کی اتنی بڑی فوج ان کو مکمل طور پر قابو پانے میں ناکام ہے ۔