الوقت- امریکہ کے عالمی سامراج ہونے میں کوئی شک نہیں اور اس وقت دنیا میں جوکچھ ہورہا ہے امریکہ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل اس میں بلواسطہ یا بلا واسطہ شریک ہے ۔روس اور چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو یا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو کمزور کرنا ہو امریکہ ان اقدامات کو انجام دینا اپنا فریضہ منصبی سمجھتا ہے ۔آج مشرق وسطی میں جو کچھ ہورہا ہے کیا کوئی اس سے انکار کرسکتا ہے ۔داعش ،القاعدہ،النصرہ اسی طرح افریقہ میں بوکرحرام اور اس سے ملتے جلتے ناموں اور نظریات کے حامل گروہ سب کے سب امریکہ بہادر کے تحفے ہیں ۔امریکہ جب چاہتا ہے انکو اپنے اھداف کے لئے استعمال کرتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کو آپس میں لڑا دیتا ہے امریکی صدر نے حال ہی میں داعش کے حوالے سے ایک بیان دیا ہے جس نے عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں کو ایک بار پھر امریکی منافقت کا یقین دلا دیا ہے اب جبکہ عراق میں داعش دہشتگرد گروہ کی دراندازی کو کئی مہینے ہونے کو ہیں امریکی صدر نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے ابھی تک اس گروہ کے مقابلے کے لئے کوئي واضح اسٹریٹیجی تیار نہیں کی ہے۔ باراک اوباما نے تاکید کے ساتھ کہا کہ امریکہ کے پاس اس وقت داعش کے زیر قبضہ عراقی علاقوں کو آزاد کرانے کے لئے بغداد حکومت کی مدد کے لئے کوئی اسٹریٹیجی نہیں ہے۔ انھوں نے اس کے ساتھ دعوی کیا کہ امریکی وزارت دفاع اس وقت عراقی فوجیوں کی ٹریننگ کے لئے اس ملک کی مدد کے طریقوں پر غور کر رہی ہے لیکن امریکی صدر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ عراقیوں کو خود اس سلسلے میں کافی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے قبل امریکی وزیر دفاع اشٹن کارٹر نے عراق کے صوبہ الانبار میں داعش کی پیشقدمی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس ملک کے فوجیوں میں داعش کے خلاف جنگ کا بھرپور عزم نہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔امریکی حکام کے یہ بیانات پڑھ کر یہ شعر یاد آرہا ہے ۔
جو درد مجھے میرے مسیحا نے دیا ہے اب میرے مسیحا کو نہیں اسکی دوا یاد
عراق اور شام میں داعش اور دوسرے دہشتگرد گروہوں کی پیشقدمی کے سامنے امریکہ کی حیرانگی کی جڑیں مشرق وسطی میں واشنگٹن کی گذشتہ کارکردگی نیز امریکی حکومت کی موجودہ متضاد پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ عراق میں بدامنی ، آشوب اور تشدد کی بنیاد اسی وقت پڑ چکی تھی جب اس ملک پر دوہزار تین میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی موافقت کے بغیر عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے بہانے حملہ کیاگیاتھا۔ صدام کی بعثی حکومت ایک ڈکٹیٹر اور ظالم حکومت تھی اس کے باوجود عراق میں جمہوریت قائم کرنے کا امریکی دعوی کبھی بھی عملی جامہ نہ پہن سکا اور آمریت کی جگہ غاصبانہ قبضے نے لے لیا۔ جبکہ غیرملکی فوجیوں کے ہاتھوں مختلف علاقوں بالخصوص فلوجہ اور ابوغریب جیلوں میں وحشیانہ اقدامات کئے گئے جس نے عراقی معاشرے کو تشدد کی راہ پر ڈال دیا۔صدام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے کئی مہینے بعد تک عراق کا سیاسی، اقتصادی اور فوجی کنٹرول، امریکیوں کے ہاتھوں میں رہا اور جب غاصب امریکی فوجی عراق سے روانہ ہونے لگے اس وقت بھی انھوں نے عراقیوں کے لئے کوئي کارآمد اور مفید فوج نہیں چھوڑی۔ اسی بنا پرمضبوط قومی اداروں کے فقدان اور طاقت کے خلا کے نتیجے میں عراقی سرزمین کے بعض حصوں پر انتہاپسندوں اور دہشتگردگروہوں نے قبضہ کرلیا۔البتہ عراق اور شام کے تمام مسائل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ماضی کی کارکردگی کا نتیجہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس وقت بھی ان کے متضاد رویے کا سلسلہ جاری ہے۔ مثال کے طورپر امریکہ ایک طرف شام میں داعش گروہ پر بمباری کر رہا ہے اور دوسری جانب شامی حکومت کا تختہ الٹنے کا خواہاں ہے ایک ایسی حکومت جس کے پاس اس وقت بھی داعش کے خلاف لڑنے کے لئے بہترین سپاہی موجود ہیں۔ جبکہ علاقے میں داعش کے سب سے بڑے فوجی و سیاسی حامی واشنگٹن کے اتحادی، سعودی عرب ، قطر، اور ترکی شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ، عراقی حکومت کو کارآمد فوجی اسلحے دینے سے اجتناب کرتا ہے جبکہ امریکی کانگریس کے بعض نمائندے بغداد حکومت کی موافقت کے بغیرکرد اور اہلسنت ملیشیا کو ہتھیار فراہم کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور شام کے محاذ پر مغربی ممالک کی داعش کی خفیہ و آشکار مدد انھیں عراقی محاذ پر بھی پیشقدمی کا موقع فراہم کررہی ہے۔ اسی بنا پر داعش کے سلسلے میں امریکی اسٹریٹیجی کا فقدان ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا خمیازہ مشرق وسطی کی اقوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ داعش کے خلاف امریکہ کی اسٹریٹجی یہی ہے کہ اسے کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جائے کیونکہ داعش کی ناکامی اور کامیابی دونوں امریکہ کے فائدے میں ہیں۔داعش اگر عراق اور شام میں شکست کھا جاتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی امریکہ لے گا اور اگر ناکام ہوجاتی ہے تو خطے میں امریکہ مخالف قوتوں خاص کر مذاحمتی بلاک کو نقصان پہنچے گا جسکی تمنا اور خواہش امریکہ اور اسرائیل کے قلب و زہن میں عرصے سے مچل رہی ہے۔