عراق كے صوبہ الانبارميں شہر رمادي پر داعش كے قبضے كا ايك اہم نتيجہ يہ نكلا ہے كہ عراق كي مركزي حكومت اور الانبار كےحكام كے لئے يہ بات ثابت ہوگئي كہ امريكہ داعش كامقابلہ كرنے كا كوئي ارادہ نہيں ركھتا ہے۔ دوسرا نتيجہ يہ ہے كہ داعش جيسے تكفيري دہشتگرد گروہ كا مقابلہ صرف عوامي رضاكاروں كي مدد سے ہي كيا جاسكتا ہے۔ يہ نتائج عراقي حكام اور صوبہ الانبار كے مقامي عھديداروں كے حاليہ بيانات سے اخذ كئےجاسكتے ہيں-
گذشتہ برس گرميوں ميں عراق كے شمالي علاقوں پر داعش كے حملوں كے بعد عراق كے بعض سياسي رہنماؤں نے كہا تھا كہ اگر ہم يہ فرض كرليں كہ امريكہ داعش كي مدد نہيں كررہا ہے تو اس دہشتگرد گروہ كا مقابلہ كرنے كا ارادہ بھي نہيں ركھتا ہے بلكہ اسے محض كٹرول كركے اپنےمقاصد حاصل كرنا چاہتا ہے لھذا داعش كو شكست دينے كے لئےامريكہ پر اعتماد نہيں كيا جاسكتا۔
اس نكتے پر عراق كے بعض سياسي رہنماؤں اور مختلف علاقوں كے مقامي رہنماؤں كو اس وقت يقين ہو جب تكيفري دہشت گرد گروہ داعش نے الرمادي پر قبضہ كرليا۔شہر رمادي پر داعش نے ايسے حالات ميں قبضہ كيا كہ امريكہ يہ اصرار كررہا تھا كہ رمادي سقوط نہيں كرے گا، امريكہ نے اسي كھوكھلے دعوے پر اصرار كرتے ہوئے مركزي حكومت پر دباؤ ڈالا كہ رمادي كے دفاع كے لئے عوامي رضا كار فورسز نہ بھيجے،امريكہ كا اصرار ايسے حالات ميں تھا كہ رمادي پر داعش كے بھرپور حملے جاري تھے۔اس كے علاوہ امريكي حكومت نے اپني فضائي برتري كے باجود رمادي كے پاس داعش كے خلاف كوئي كاروائي انجام نہيں دي اور نہ ہي رمادي كي طرف داعش كے بڑھتے قدم روكنے كي كوشش كي۔
ان حالات كے بعد ہي صوبہ الانبار كے حكام اور مركزي حكومت كے بعض حكام كي سمجھ ميں آيا كہ امريكہ پر اعتماد نہيں كيا جاسكتا اور امريكہ داعش كا مقابلہ كرنے كا كوئي ارادہ بھي نہيں ركھتا ہے۔ رواں ہفتے كے آغاز ميں صوبہ الانبار ميں واشنگٹن پوست كے صحافي نے ايك رپورٹ بھيجي تھي جس كا عنوان تھا'حبانيہ ميں امريكہ پر بے اعتمادي صاف ديكھي جاسكتي ہے' اس رپورٹ ميں واشنگٹن پوسٹ نے صوبہ الانبار كي انتظامي كونسل كے نائب سربراہ كے حوالے سے لكھا تھا كہ ميں الانبار ميں امريكہ كا سب سے پہلا اتحادي تھا ليكن اوباما جھوٹے ہيں كيونكہ انہوں نے كہا تھا كہ الرمادي پر داعش كا قبضہ نہيں ہوگا۔ انہوں نے كہا كہ الانبار كے پاس اتحاد كے لئے دو آپشن تھے ايران يا امريكہ۔ ہم نے امريكہ يعني ايك طاقتور ملك كا انتخاب كيا تھا ليكن ہم نےغلطي كي تھي۔
صوبہ الانبار كے مقامي حكام كے علاوہ مركزي حكومت كے حكام كے قول و فعل ميں بھي امريكہ پر بے اعتمادي كو ديكھا جاسكتا ہے۔ عراق كے وزير اعظم حيدر العبادي نے الرمادي پر داعش كے قبضے كے بعد روس كا دورہ كيا۔ مبصرين نے ان كے دورہ ماسكو كو امريكہ سے مايوسي كي علامت قرارديا۔ يادرہے اس سےقبل حيد العبادي نے امريكہ سے قريب ہونے كي كوشش كي تھي۔ بعض سياسي مبصرين نے يہانتك كہا ہےكہ الرمادي پر داعش كا قبضہ مغرب سے قريب ہونے كي حيدر العبادي كي پاليسيوں كا نتيجہ ہے كيونكہ انہوں نے وائٹ ہاوس كي خشنودي كي خاطر عوامي فورسز كو رمادي كي طرف جانے سے روك ديا تھا۔
العراقيہ ٹي وي پر حيدرالعبادي كے انٹرويو سے يہ صاف ظاہر ہےكہ وہ اب مستقل اور امريكہ سے دور ہونے كي پاليسياں اپنا رہے ہيں۔ عراق كے وزير اعظم نے اس انٹرويو ميں كہا تھا كہ وہ تمام تر مخالفتوں كے باوجود موصل كي آزادي كے لئے عوامي رضا كار فورس كو روانہ كريں گے۔ انہوں نے كہا كہ امريكہ عراق ميں عوامي فورسز كے استعمال كے بار ے ميں فيصلہ نہيں كرسكتا۔ اور يہ عراقي قوم ہے جو اس سلسلے ميں فيصلہ كرے گي اور امريكہ بھي يہ بات جانتا ہے۔
ايك سال لگ گيا كہ عراق كے بعض حكام يہ سمجھ جائيں كہ امريكہ داعش كامقابلہ كرنے كا كوئي ارادہ نہيں ركھتا۔ البتہ يہ يقين جو الرمادي پر داعش كے قبضے كےبعد حاصل ہوا ہے داعش كو شكست دينے ميں عراقي قوم كي كوششوں ميں نياباب ثابت ہوسكتا ہے۔