الوقت- افغانستان كي اعلي امن كونسل اور طالبان كے درميان قطر ميں ہونے والي بات چيت كي خبريں ايك بار پھر ميڈيا ميں آنا شروع ہوگئي ہيں۔ طالبان كي جانب سےعالمي ميڈيا كي طرف سے سامنے آنے والي ان خبروں كے بارے ميں تائيد اور ترديد دونوں طرح كي خبريں سامنے آرہي ہيں۔امن كونسل كے نائب سربراہ عطا اللہ لودين نے چند دن پہلے كہا تھا كہ بيس افراد پر مشتمل ايك حكومتي وفد قطر گيا ہے اور اس نے اتوار اور پير كو ابتدائي مسائل پر طالبان كے ساتھ بات چيت كي ہے تاہم طالبان كي طرف سے اس بيان كي ترديد كي گئي ہے ان كا كہنا عالمي پكواش كانفرنس ميں شركت كے لئے ہم نے اپنا آٹھ ركني وفد بھيجا ہے جسكا مذاكرات سے كوئي تعلق نہيں اور اس اجلاس مين ديگر گروہوں كے افراد بھي شريك ہيں۔
يہ كانفرنس اگرچہ ايك علمي تحقيقاتي كانفرنس تھي ليكن اس موقع پر افغان حكومت،طالبان اور حكومت پاكستان كے نمائندوں كے درميان بات چيت ضرور ہوئي ہے ۔۔ان ملاقاتوں مين حزب اسلامي حكمت يار كے دو نمائندے بھي شريك ہوئۓ ۔طالبان كي طرف سے شركت كرنے والے افراد كے بارے ميں ابھي يقين سے نہيں كہا جاسكتا ہے كہ وہ ملا عمر كي اجازت سے شريك ہوئے ہيں يا بغير اجازت كے۔ . امريكہ اور اسكے اتحاديوں كے افغانستان پر حملے كو ايك عشرہ سے زيادہ عرصہ ہونے كو ہے جو طالبان اور القاعدہ كے خلاف مقابلے كے بہانے انجام دئے گئے تھے ليكن اس كے باوجود اب بھي اس ملك ميں طالبان گروہ ملكي سلامتي كے لئے ايك خطرہ سمجھا جاتا ہے ۔ افغانستان ميں غير ملكي فوجيوں كي موجودگي اور افغان فورسز كو تربيت دينے كے اعلانات اور بالخصوص افغان امريكہ اسٹريٹجك معاہدے كے باوجود ايسے كوئي اثار محسوس نہيں ہورہے ہيں كہ امريكہ نے افغان سيكوريٹي فورسز كو جديد ہتھياروں سے ليس يا انكي خاطر خواہ فوجي تربيت كي ذمہ داري انجام دي ہو بلكہ صورت حال يہ ہے كہ ملكي بد امني ميں روز بروزاضافہ ہورہا ہے۔
افغانستان كے عوامي نمائندے اورپارليمنٹ كے اراكين كا كہنا ہے كہ افغان امريكہ اسٹريٹجك معاہدے سے پہلے ملك كے اندر موجود مسلح گروہ بدامني كا باعث تھے ليكن اس معاہدے كي منظوري كے كچھ عرصےكے بعد اب افغانستان كو بيروني حملہ آوروں كے چيلنجوں كا بھي سامنا ہے ۔اس معاہدے كي ايك شق كے مطابق فريقين كي ذمہ داري ہے كہ وہ افغانستان ميں سياسي استحكام اور سيكوريٹي ميں بہتري كے لئے ايك دوسرے سے تعاون كريں گے ليكن اب جبكہ ملك ميں سلامتي كي صورت حال انتہائي خراب ہے امريكہ اور نيٹو اپنے وعدوں پر عمل نہيں كررہے ہيں ۔يہي وجہ ہے كہ داعش جيسا منحوس دہشتگرد گروہ افغانستان ميں سامنے آرہا ہے ۔افغانستان كي ماضي كي سياست مختلف نشيب و فراز كا شكار رہي ہے اور اس ميں ملكي اور غير ملكي كھلاڑيوں نے اپنے اپنے اہداف كو سامنے ركھتے ہوئے كردار ادا كيا ہے اس وقت بھي عالمي بالخصوص مغربي ايشيا كے حالات كا بھي افغانستان كے ساتھ زكر كيا جارہا ہے جسكي وجہ سے افغانستان ايك بار پھر عالمي توجہ كا مركز بن رہا ہے ۔دوسري طرف پاكستان اور افغانستان كے حالات بھي اس بات كا تقاضا كرتے ہيں كہ يہ دونوں مملك اپنے باہمي مسائل اور طالبان كے حوالے سےكوئي پائيدار حل سامنے لائيں شايد يہي وجہ ہے كہ دونوں ممالك طالبان كے ساتھ مذاكرات كو كسي حتمي نتيجے تك پہنچانے كے خواہاں ہيں۔پاكستان،افغانستان اور امريكہ طالبان كا باب بند كركے شمالي افغانستان ميں داعش كو سامنے لانا چاہتے ہيں اور يہ اس وقت تك ممكن نہيں جبتك طالبان كو خطے ميں كمزور نہ كيا جائے دوسري طرف طالبان كا يہ كہنا ہے كہ جب تك غير ملكي فوجيں افغانستان ميں موجود ہيں ان كي جنگ جاري رہے گي ۔
.