الوقت- پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے منگل کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ریاستی خودمختاری اور اندرونی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں اور ہم سب کو مل کر انتہاپسندی ، دہشت گردی اور منشیات و انسانوں کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے -
پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم تخفیف اسلحہ کےلئے کام کر رہی ہے ، ہم اقتصادی راہداری منصوبے کوکامیابی کی مثال بنانا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کے منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ علاقے کو ایک دوسرے سے متصل کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے -
پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او علاقے کے ثبات و استحکام میں اہم کردار کا حامل ہے- نواز شریف نے تاکید کی کہ مشترکہ اقدار کا تعین کر کے ہمیں یکجہتی اور مشترکہ فلاح و بہبود کو فروغ دینا چاہئے -
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے اعظم کا چودہواں اجلاس، پیر چودہ دسمبر کو چین کے شہر جن جوئی میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس کی صدارت چین کے وزیر اعظم لی ککیانگ نے کی۔ اس اجلاس کا مقصد، رکن ملکوں کی شراکت کی سطح بڑھانے کی غرض سے ان کے درمیان تعاون کو فروغ دینا قرار دیا گیا تھا۔اس اجلاس میں تجارت، اقتصاد، مشترکہ سرمایہ کاری، نقل و حمل، مواصلاتی ٹکنالوجی کے فروغ اورتوانائی جیسے موضوعات پر خاص طور سے گفتگو ہوئی۔ البتہ سیاسی مسائل اور انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مہم سے متعلق متحدہ عزم کے پیش نظر اس اجلاس میں ان مسائل پر بھی گفتگو کی گئی۔اس میں شک نہیں کہ روس اور چین جیسے شنگھائی تعاون تنظیم کے قدیمی رکن ممالک، بڑی معیشت کے حامل ایران جیسے ملکوں کے تعاون کے مواقع سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور منگولیا کے ساتھ ساتھ ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے مبصر کی حیثیت سے رکن ملک شمار ہوتا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے اعظم کے اس اجلاس کے پہلے روز، مواصلات اور انفارمیشن ٹکنالوجی پر بھرپور توجہ دیئے جانے پر تبادلۂ خیال کیا گیاہے۔ اس تنظیم کے رکن ممالک، سن دو ہزار ایک سے اس مسئلے پر خاص طور سے توجہ دیتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف سطح کے تشکیل پانے والے اجلاسوں میں اس بارے میں پائی جانے والی کمی کو دور بھی کردیا گیا ہے۔ اس وقت اطلاعات و مواصلاتی ٹکنالوجی کے ماحول میں مواصلاتی نیٹ ورک کا وجود اور اسے مستحکم بنانا اس علاقائی تنظیم کے اہم فرائض میں تبدیل ہو گیا ہے۔اس اجلاس میں جن مسائل پر گفتگو ہوئی ہے ان میں، چالیس ارب ڈالر کے سرمایے کے ساتھ شاہراہ ریشم فنڈ کے استعمال کا طریقہ اور سو ارب ڈالر کے سرمایے کے ساتھ ایشیائی بینک سے استفادہ نیز صنعتی تعاون کو مضبوط بنانا جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاہراہ ریشم، چین کو دنیا کے ساٹھ دیگر ملکوں منجملہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں سے ملاتی ہے اور یہ امر, اکیسویں صدی میں مصنوعات کی لین دین اور مال کی سپلائی نیز انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں توسیع کے حوالے سے بنیادی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے وزرائے اعظم کے چودہویں اجلاس میں، اقتصاد و تجارت، صنعت اور انفرااسٹرکچرمنصوبوں کو فروغ دیئے جانے پر توجہ کے پیش نظر اس اجلاس کے ایجنڈے کو ممکنہ طور پر مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر شاید ہی کوئی ہو، جو اس بات کو نہ جانتا ہو کہ موجودہ دنیا میں کوئی بھی اقتصادی معاملہ نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس قسم کے تعاون کے لئے سیکورٹی فراہم کی جائے۔ اپریل سن انّیس سو چھیانوے سے، جب سے اس تنظیم کو شنگھائی پانچ کا عنوان دیا گیا، اس تنظیم میں سیاسی و سیکورٹی تعاون کے مسئلے کو اہم اور اولین ترجیح حاصل رہی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بیشتر رکن ملکوں، خاص طور سے روس اور چین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ انتہا پسندی و دہشت گردی اور علیحدگی پسند عناصر سے خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کی بناء پر اس تنظیم کے رکن ملکوں کی اجتماعی سیکورٹی کا تحفظ اور ان کے لئے پرامن ماحول کا قیام، ایک اہم ضرورت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم، بیرونی اور اسی طرح رکن ملکوں کے درمیان پیداوار، اجناس کی خرید و فروخت اور لین دین کے ذریعے داخلی تعاون میں فروغ کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی امن کے تحفظ کے لئے ایک اہم طاقت میں تبدیل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تنظیم کو اگرچہ معیشت کے عالمی ہونے جیسے عمل سے متعلق مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے اس لئے وہ، دنیا کے چند قطبی ہونے کے عمل میں تعاون کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دریں اثنا شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کے آغاز سے ہی سیکورٹی کے مسائل پر توجہ کو اپنا ایک فریضہ قرار دیا ہے اور فطری طور پر منشیات کے خلاف مہم، اس تنظیم کے فرائض کا حصہ بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ یہ تنظیم، اگر افغانستان کو رکنیت نہیں دیتی ہے تو بھی منشیات کا مسئلہ، منی لاڈرنگ اور ہتھاروں کی اسمگلنگ، اس تنظیم کے لئے بدستور ایک بڑا چیلنج شمار ہوتا ہے۔ باخبر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں کوئی بھی مستحکم اقتصادی معاملہ انجام نہیں پا سکتا مگر یہ کہ اس تنظیم کے رکن ممالک، اقتصاد و سیاست اور سیکورٹی کی اصطلاح کو صرف ایک نظر سے دیکھیں، بالفاظ دیگر اس تنظیم کو، اپنے طویل المدت مقاصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے متضاد مفادات کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اہم اقدامات عمل میں لانے کی اشّد ضرورت ہے۔